احمد شاہ ابدالی کا پورٹریٹ

احمد شاہ ابدالی، جسے احمد شاہ درانی بھی کہا جاتا ہے، اٹھارہویں صدی کی ایک اہم تاریخی شخصیت ہے جس نے نہ صرف افغانستان کی بنیاد رکھی بلکہ برصغیر کی سیاست اور تاریخ پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اُس کا شمار ان سپہ سالاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے مغل سلطنت کے زوال کے دور میں طاقت کا توازن بدل دیا۔ لیکن اُس کی شخصیت کو لے کر آج بھی دو رائے پائی جاتی ہیں: کچھ اُسے افغان قوم کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اُسے برصغیر کے لیے تباہی کا باعث قرار دیتے ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تربیت

احمد شاہ ابدالی 1722 میں ہرات کے قریب ملتان کے گورنر زمان خان کے خاندان میں پیدا ہوا۔ اُس کا تعلق ابدالی قبیلے سے تھا جو بعد میں درانی کہلایا۔ نوجوانی ہی میں وہ نادر شاہ افشار کی فوج میں شامل ہوا اور اپنی بہادری اور سیاسی فہم و فراست سے نادر شاہ کے اعتماد پر پورا اُترا۔ نادر شاہ کے قتل کے بعد اُس نے افغان لشکر کی کمان سنبھالی اور قندھار میں اپنی خودمختار سلطنت کا اعلان کیا۔

اُس کی فوجی تربیت نادر شاہ جیسے عظیم فاتح کے زیرِ نگرانی ہوئی، جس نے اُسے جنگی حکمت عملی اور ریاستی معاملات کی گہری سمجھ عطا کی۔ احمد شاہ کی شخصیت میں جرأت، قائدانہ صلاحیت، اور مقصد کے لیے عزم و ہمت کی جھلک ابتدا ہی سے نمایاں تھی۔

افغان سلطنت کی بنیاد

1747 میں نادر شاہ کی موت کے بعد احمد شاہ نے افغان سرداروں کی حمایت سے قندھار میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی، جو بعد میں “درانی سلطنت” کہلائی۔ اُس نے جلد ہی ہرات، غزنی، کابل، قندھار اور بلوچستان جیسے علاقوں پر قبضہ کر لیا، اور یوں افغانستان کی پہلی منظم سلطنت قائم کی۔

اُس کی حکمرانی نہ صرف عسکری فتوحات پر مبنی تھی بلکہ اُس نے اپنے دور میں نظم و نسق، خراج کا نظام، اور قبائلی اتحاد کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ درانی سلطنت جلد ہی وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی ایک اہم طاقت بن گئی۔

برصغیر کی مہمات

احمد شاہ ابدالی نے برصغیر پر کئی بار حملے کیے۔ اُس کا پہلا حملہ 1748 میں ہوا جب اُس نے پنجاب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ پہلے حملے میں وہ مکمل کامیاب نہ ہو سکا، لیکن اگلے دو دہائیوں میں اُس نے بار بار ہندوستان کا رُخ کیا۔

1749، 1751، اور 1756 میں اُس نے دہلی، پنجاب، ملتان اور دیگر علاقوں کو نشانہ بنایا۔ ہر بار اُس کا مقصد مغلوں کی کمزوری سے فائدہ اُٹھانا اور ہندوستان کی دولت کو افغانستان منتقل کرنا تھا۔ ان حملوں سے نہ صرف مغل سلطنت کمزور ہوئی بلکہ ہندوستان کے سیاسی نقشے میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں۔

پانی پت کی تیسری جنگ

1761 میں احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان لڑی گئی پانی پت کی تیسری جنگ برصغیر کی تاریخ کا ایک نکتۂ عروج ہے۔ مرہٹے، جو مغلوں کی جگہ شمالی ہندوستان پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے تھے، ابدالی کے لیے ایک خطرہ بن چکے تھے۔ احمد شاہ نے ایک عظیم اتحاد قائم کیا جس میں نواب شجاع الدولہ اور روہیلوں نے اُس کا ساتھ دیا۔

14 جنوری 1761 کو پانی پت کے میدان میں لڑی گئی اس خونریز جنگ میں مرہٹے بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مورخین کے مطابق تقریباً ایک لاکھ مرہٹے مارے گئے۔ اگرچہ احمد شاہ نے یہ جنگ جیت لی، لیکن اس کے بعد وہ واپس افغانستان چلا گیا اور ہندوستان میں کوئی مضبوط انتظامیہ نہ چھوڑ سکا۔

برصغیر پر اثرات

احمد شاہ کے حملوں نے مغل سلطنت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ دہلی کی تباہی، خزانے کی لوٹ مار، اور لاکھوں انسانوں کی ہلاکت نے برصغیر کے سیاسی، معاشی، اور سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ پانی پت کی جنگ نے مرہٹوں کی طاقت توڑ دی، لیکن کوئی مستحکم اقتدار نہ قائم ہو سکا، جس کا فائدہ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اُٹھایا۔

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اگر احمد شاہ ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرتا تو انگریزوں کے عروج کو روکا جا سکتا تھا۔ تاہم، وہ ہمیشہ اپنے وطن واپس چلا جاتا، جس سے سیاسی خلا پیدا ہوتا رہا۔

وفات اور وراثت

احمد شاہ ابدالی 1773 میں قندھار میں وفات پا گیا۔ اُس کے بعد اُس کے بیٹے تیمور شاہ نے درانی سلطنت سنبھالی، لیکن اُس کا دور باپ جیسا مستحکم نہ رہا۔ افغانستان میں قبائلی بغاوتیں اور داخلی انتشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔

اگرچہ احمد شاہ ابدالی کی فتوحات اور سلطنت مختصر عرصے پر محیط تھیں، لیکن اُس کی شخصیت آج بھی افغانستان میں قومی فخر کی علامت ہے۔ اُسے “بابائے افغان” کہا جاتا ہے اور اُس کا مزار قندھار میں واقع ہے۔

نتیجہ

احمد شاہ ابدالی ایک عظیم فوجی کمانڈر، زیرک حکمران، اور افغان وحدت کا معمار تھا۔ تاہم، برصغیر میں اُس کی یاد زیادہ تر تباہی، لوٹ مار، اور خونریزی سے جڑی ہوئی ہے۔ اُس نے ایک طرف مغل زوال کے بعد کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی، تو دوسری طرف سیاسی استحکام قائم کیے بغیر واپس چلا جاتا رہا۔

کیا وہ ایک فاتح نجات دہندہ تھا یا برصغیر کی بربادی کا ذمہ دار؟

یہ سوال آج بھی مؤرخین کے درمیان بحث کا موضوع ہے، اور شاید ہمیشہ رہے گا۔

By Kashif

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *