Blue Mosque Turkey


 سلطان احمد مسجدجو کہ نیلی مسجد کے نام سے مشہور ہے، استنبول ترکی میں واقع ایک خوبصورت عالیشان مسجد ہے. اس مسجد کی بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کی وجہ سے ہی اسے نیلی مسجد کا نام دیا گیا ہے. یہ ترکی کی 6 میناروں والی واحد مسجد ہے.

سلطان احمد مسجد جس کو نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے، آج کے آرٹیکل میں آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس کو سلطان احمد مسجد کیوں کہا جاتا ہے، اس کا نام نیلی مسجد کیوں پڑا، اس مسجد کے اندر کیا کیا ہے. یہ سب جاننے کے لئے یہ آرٹیکل پورا پڑھیں. 


Blue Mosque Turkey


 سلطان احمد نے  ایران جنگ اور سیتوتوق معاہدہ کے بعد ترکی کے موجودہ استنبول شہر میں ایک عالیشان مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا. یہ پہلی مسجد تھی، جسے 40 سال کی مدت کے بعد کسی شاہی فرد کے احکام پر تعمیر کیا جانا تھا. عثمانی سلطان احمد نے سلطنت عثمانیہ کے خزانے سے اس مسجد کے تعمیراتی اخراجات ادا کئے. اس مسجد کی باقاعدہ شروعات تعمیر سن 1609 میں ہوئی. آٹھ سال کے عرصے میں سن 1616   تک مکمل نہیں ہو سکی تھی.


  Blue Mosque Turkey Detailed History


سلطنت عثمانیہ کے علماء اور فقہاء اس مسجد کی تعمیر پر برہم تھے، کیونکہ اس کی جگہ بازنطینی بادشاہوں کے محل اور آیا صوفیہ کے بالکل سامنے (استنبول کی شاہی مسجد) منتخب کی گئی تھی. ایک ایسی جگہ جہاں پہلے بالکل اس کے سامنے ایک شاہی مسجد موجود ہو، وہاں دوسری مسجد کی تعمیر ایک معمہ ہی تھا.

ایک حکایت میں لکھا گیا ہے کہ سلطان احمد اور معمار کے مابین غلط فہمی کی بناء پر چھ مینار تعمیر کردیئے گئے. سلطان احمد کو جب اس بات کا پتہ لگا تو وہ شدید برہم ہوئے کیونکہ مسجد الحرام بھی چھ میناروں پر مشتمل تھی. اس غلطی کی بھرپائی کے لئے سلطان احمد نے مسجد الحرام میں ایک اضافی مینار تعمیر کرنے کا حکم صادر کردیا.

اس مسجد میں 10 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے. نیلی مسجد کی لمبائی 72 میٹر ہے اور چوڑائی 64 میٹر ہے.نیلی مسجد میں 200 سے زائد شیشے کی کھڑکیاں موجود ہیں. تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گزر رہے. مسجد کے اندر خطاطی کا  کام اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے کیا اور قرآن پاک کی آیات کی خطاطی مکمل کی. مسجد کی طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دیتا ہے، تب مسجد کے چاروں کونوں اور ہر جگہ سے امام کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے اور سنا جاسکتا ہے. مسجد کے ہر مینار پر 3 چھجے ہیں ، اور کچھ عرصہ قبل تک موذن پانچوں نماز کے اوقات اس مینار پر چڑھ کر مسلمانوں کو نماز کے لئے صدا لگاتے تھے، آجکل اس کی جگہ صوتی نظام استعمال کیا جانے لگ گیا ہے جس کی آوازیں قدیم شہر کے ہر گلی اور کوچے میں سنی جاتی ہیں. نماز مغرب پر یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی کثیر تعداد بارگاہِ الہی میں سجدہ سربجود ہوتی ہے. رات کے وقت مختلف رنگ کے برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ جلال میں مزید اضافہ کرتے ہیں. اس کے ساتھ ہی جو باقی خاص مساجد ہیں ان میں آیا صوفیہ اور مسجد سلیمانیہ شامل ہیں. لیکن بات کریں اگر نیلی مسجد کی تو اس میں 9 ایسی خاصیت ہیں جو اس کو منفرد بناتی ہیں. یہ سب اس آرٹیکل میں بتائی جارہی ہیں. جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ ترکی کے شہر  استنبول کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں ہر سال سیاحوں کی کثیر تعداد آتی ہے، اس کی ایک وجہ اس کا تاریخی ہونا ہے، اس شہر میں قدیم ترین سلطنتوں، بازنطینی اور قسطنطنیہ کے دور کی کئی نشانیاں پائی جاتی ہیں. یہاں موجود تاریخی ورثے کو دیکھنے کے لئے ہزاروں سیاح ہر ماہ استنبول شہر کا رخ کرتے ہیں. ان سب شاہکاروں کی لسٹ میں ایک جاذب نظر اور خوبصورت عمارت نیلی مسجد بھی شامل ہے. جس کا نام بھی دنیا کی عظیم ترین عمارتوں کی لسٹ میں گنا جاتا ہے. اس مسجد کو سلطان احمد کیمی کے نام سے بھی جانا پہچانا جاتا ہے، کیمی ایک ترکش لفظ ہے، جس کے معنی ‘مسجد’ ہیں. یہ مسجد چونکہ سلطان احمد نامی ضلع میں واقع تھی، اس و جہ سے اس کا نام ‘سلطان احمد کیمی‘ پڑ گیا. یہ مسجد پورا سال کھلی رہتی ہے. نماز کے اوقات میں صرف 90 منٹ کے لئے بند کی جاتی ہے. اور نماز کے دوران کسی بھی سیاح کو تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے.


Blue Mosque Turkey


اس مسجد کو سن 1619 عیسوی میں ایک آرکیٹیکٹ صدفکار محمد آغا نے مکمل کی. یہ آرکیٹیکٹ عثمانیہ سلطنت کا ماہر ترین آرکیٹیکٹ تھا. اس مسجد میں 260 کھڑکیاں ایسی ہیں، جن میں رنگینی اورنقش و نگاری سے آراستہ کئے گئے شیشے نصب ہیں. اور اگر ان شیشوں کو دیکھا جائے تو مختلف قسم کے رنگ ایک ہی کھڑکی میں آپ کو نظر آتے ہیں. ان کے ساتھ جو دروازے موجود ہیں ان پر نقش و نگاری اس قدر خوبصورت کی گئی ہے کہ انسان حیران پریشان رہ جاتا ہے کہ قدرت کی صناعی کے بعد انسان بھی کیا ایسی کاریگری کرسکتا ہے. اس مسجد کے مینار بھی شاہکار ہیں. اس مسجد کی اندرونی تزئین و آرائش میں 20 ہزار نیلے رنگ کی ٹائلیں نصب کی گئی ہیں، جن کو بلیو ٹائلز کہا جاتا ہے. اس مسجد کے طرزِ تعمیر کو سلطنت عثمانیہ اور بازنطینی سلطنت دور کے طرزِ تعمیر کا ایک مرکب سمجھا جاتا ہے. اس مسجد کی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس کے 6 مینار ہیں، جبکہ اس کے علاوہ اس مسجد کو ایک بڑے اور 8 چھوٹے گنبدوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے. سال 2004 میں پاپ بینڈیکیٹ   نے اس مسجد کا دورہ کیا، جبکہ 2014 میں دوبارہ پاپ فرانسیس نے بھی اس کا دورہ کیا. سال 2009 میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے نیلی مسجد کا دورہ کیا، اور اس وقت امریکی صدر کے ہمراہ ترکی کے موجودہ وزیراعظم طیب اردگان بھی تھے. یہ مشہور مسجد آیا صوفیہ جس کو چرچ آف ہالی وزڈم کہا جاتا ہے، یا موجودہ آیا صوفیہ عجائب گھر جسے کہا جاتا ہے، اس کے سامنے تعمیر کرائی گئی تھی. ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا گھر ہے، جسے 1453 میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد عثمانی ترکوں نے اسے مسجد کا درجہ دے دیا تھا. سن 1935 میں اتاترک نے اس کے گرجا گھر اور مسجد دونوں کی حیثیت ختم کرکے کے عجائب گھر کا درجہ دے دیا تاکہ یہ معاملہ ہی ختم ہو جائے.


Blue Mosque Turkey ٖFull History


آیا صوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور اسے بلا شک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے. چوتھی صدی عیسوی کے دوران تعمیر کئے گئے گرجے کے کوئی آثار اب موجود نہیں ہیں. پہلے گرجے کی تباہی کے بعد قسطنطنین اول کے بیٹےقسطنطنین ثانی نے اسے دوبارہ تعمیر کیا. یہ بھی فسادات اور ہنگاموں کی نظر ہو گیا. اسے جسٹسین اول نے دوبارہ تعمیر کروایا اور 27 دسمبر 537 کو یہ مکمل ہوا. یہ گرجا ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہا ہے. آیا صوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار رہا، جس میں سن 558 میں اس کا گنبد گر گیا اور سن 563 میں نیا تعمیر کیا گیا  گنبد بھی تباہ ہو گیا.


Blue Mosque Turkey

سن 989 کے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا. سن 1453 میں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد آیا صوفیہ کو ایک مسجد بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت سن 1935 تک برقرار رہی، جب تک کہ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے اسے عجائب گھر کا درجہ نہیں دے دیا.

آیا صوفیہ بلاشبہ بازنطینی طرزِ تعمیر کا ایک عظیم شاہکار تھا، جس سے عثمانی طرزِ تعمیر نے اپنا شروعاتی جنم لیا. عثمانیوں کی قائم کردہ دیگر مساجد میں شہزادہ مسجد، سلیمان مسجد اور رستم پاشا مسجد ہیں. یہ سب آیا صوفیہ کے طرز تعمیر کو مدنظر رکھ ہی تعمیر کی گئی ہیں. عثمانی دور میں مسجد کے کئی تعمیراتی کام کئے گئے، جن میں سب سے معروف سولہویں صدی عیسوی کے مشہور ماہر تعمیرات معمار ثنان پاشا کی تعمیر کا ہے، جس میں نئے میناروں کی تنصیب بھی شامل تھی، جو کہ آج بھی قائم ہیں.


History Of Blue Mosque Turkey

انیسویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر اور وسط میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور چاروں خلفائے راشدین کے نام کی تختیاں نصب کی گئی. اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر یعنی 102 فٹ اور 56 میٹر بلند ہے. دوسری جانب اگر بات کی جائے اس کی  خوبصورتی کی تو آیا صوفیہ کا ایک وضو خانہ بھی موجود ہے، جو عثمانی دور میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا طرزِ تعمیر بہت خوبصورت ہے. اگر آیا صوفیہ کے اندرونی مناظر کی بات کی جائے تو اس پر لاکھوں بلکہ اس وقت میں کروڑوں روپے لاگت آئی. یعنی اس کی قیمت 150 ٹن سونے کی قیمت کے برابر تھی. حالیہ دور میں اس کا اندازہ لگایا جائے یا تخمینہ لگایا جائے تو اربوں روپے کی رقم بنے گی. جدید ترکی کے بانی  اتاترک نے سن 1934 میں حاجیہ صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا اور اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ قدیم نقش و نگار بھی بحال کردیئے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھپا دیا گیا تھا. اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں کئے گئے اضافے بھی برقرار رہیں.

اس مسجد کے بڑے گنبد میں روشنی کے لئے تعمیر کی گئی 40 کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا ناں ہوں.یہ ایک عام بات نہیں ہے. حاجیہ صوفیہ کی بیرونی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی ایک تصویر چودھویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے. کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں بہت سے چہرے صاف نظر آتے ہیں، اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں، ان کے بائیں جانب حضرت مریم رح ہیں اور جبکی دائیں جانب یوحنا ہیں. اس تمام تر معاملے سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی نظر آتی ہے کہ کسی بھی دور میں، کسی بھی صورت میں، جو آرٹ اور کرافٹ ہے، اس کی قدر کم نہیں ہوئی. اور ساتھ ہی ساتھ مسلم امہ اور مسلمان سائنسدان، مسلمان حکمران ہر دور میں اس بات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں کہ اپنی ثقافت کو بہتر سے بہتر  انداز میں پیش کیا جانا چاہیے، تاکہ تمام لوگ، تمام عالم یہ جان سکے کہ مسلمان اپنی الگ ثقافت اور الگ معیار زندگی رکھتے ہیں.


Assalam O Alaykum,

Hope you all like this article about Blue Mosque Turkey. If you really enjoy reading history of blue mosque turkey then please share it with your family and friends. Thanks

By Kashif

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *