شروع کرتا ہوں اللہ پاک کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ خلافت عثمانیہ ہماری اسلامی تاریخ کا وہ سنہری دور ہے جو ہمیں یقین دلاتا ہے کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں۔ اپنے ناظرین کی درخواست پر ہم نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں ہم آپ کو خلافت عثمانیہ یا سلطنت عثمانیہ کے تمام بادشاہوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتائیں گے۔ آج کا آرٹیکل سلطنت عثمانیہ کے دوسرے سلطان اورخان غازی کے بارے میں ہے۔
Orhan Ghazi History in Urdu :
آگے بڑھنے سے پہلے عثمان غازی کے خواب کے متعلق جان لیتے ہیں۔ عثمان غازی کا خواب کیا تھا؟ آئیے ہم آپ کو پہلے یہ بتا دیتے ہیں جب عثمان غازی لڑکپن میں تھے، اس وقت ایک مشہور ترک عالم اور بااثر صوفی شیخ ادیبالی ہوا کرتے تھے۔ ایک رات عثمان شیخ ادیبالی کے مزار پر سو رہے تھے تب انہوں نے خواب دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک ہلال کا چاند شیخ ادہ بالی کے سینے سے نکلا اور آہستہ آہستہ یہ بدر کا چاند بن گیا اور عثمان کے سینے میں پیوست ہوگیا۔ پھر عثمان کے پہلو سے ایک درخت نمودار ہوا ، جو بڑھتا گیا اور پھیلتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کی شاخیں آدھی زمین پر پھیل گئیں۔ اس درخت کی جڑوں سے دنیا کے چار بڑے دریا بہہ رہے تھے۔ اور اس درخت کی شاخوں نے چار بڑے پہاڑوں کو سہارا دیا ہوا تھا۔ درخت کے پتے تلواروں سے ملتے جلتے تھے۔ اچانک تیز ہوا چل گئی اور درخت کے پتے ایک براعظم کی طرف ہوگئے۔ وہ براعظم ایک انگوٹھی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ عثمان نے یہ انگوٹھی پہننا چاہی لیکن اس کی آنکھ کھل گئی ،عثمان غازی نے یہ خواب اڈہ بالی سے بیان کیا ، یہ خواب سن کر شیخ نے فورا ہی اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردی۔ اب تاریخ میں فرق ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق شیخ کی بیٹی ایک مال خاتون تھی اور اس نے اورخان کو جنم دیا تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق وہ رابعہ بالا تھیں ، جو عثمان کی دوسری بیوی تھیں۔ جن سے ان کا دوسرا بیٹا علاوالدین پیدا ہوا۔ اور مال خاتون کے والد عمر بے تھے۔ تاہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ سلطان اورخان غازی 6 فروری 1288 کو سوگوتھ میں پیدا ہوا تھے اور ان کے والد عٹمان غازی اور والدہ مال خاتون تھیں۔
History Of 2nd Ruler Of Ottoman Empire :
اورخان اول سلطنت عثمانیہ کے دوسرے حکمران تھے۔ عثمان غازی کی موت کے بعد ، ان کے بیٹے اور خان غازی تخت نشین ہوئے اور انہوں نے بھی حکومت اور فتوحات میں اپنے والد کی پالیسی کو جاری رکھا۔ 1327 میں انہوں نے نیکومیمبیا کو فتح کیا۔ ازمٹ استنبول کے قریب شمال مغربی ایشیاء پیسیفک کا ایک شہر ہے۔ اورخان نے یہاں پہلی عثمانی یونیورسٹی قائم کی اور دائود قیصری کو اس کا پرنسپل مقرر کیا، جو کہ عثمانی علماء میں بہت شہرت رکھتے تھے اور انہوں نے مصر میں اسلامی علوم کا مطالعہ کیا تھا۔ سلطان اور خان دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کو پورا کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے قسطنطنیہ کے بارے میں دی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے ایک بہت ہی اہم حکمت عملی تیار کی ، جس کا مقصد بازنطینی دارالحکومت کا ایک ہی وقت میں مشرق اور مغرب سے گھیراؤ کرنا تھا۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، اورخان غازی نے اپنے بیٹے سلیمان پاشا کو بھیجا کہ وہ تنگ “ڈرونل” عبور کرے اور کچھ مغربی گوشوں میں موجود مقامات پر قبضہ کرلے۔ سلیمان پاشا رات کے اندھیرے میں چالیس گھوڑوں سواروں کے ساتھ آبنائے کو عبور کر کے مغربی کنارے پہنچ گیا اور وہاں لنگرانداز رومی کشتیوں پر حملہ کردیا ، اور انہیں اپنے قبضے میں لے لیا۔ قبضے کے بعد وہ کشتیاں مشرقی ساحل پر لے آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت عثمانیوں کے پاس بحری بیڑہ نہیں تھا کیونکہ ان کی سلطنت ابھی ابتدائی مراحل میں تھی۔ مشرقی ساحل پر پہنچ کر سلیمان نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ ان کشتیوں پر سوار ہوجائیں اور یورپی ساحل تک پہنچ جائیں۔ تو ایسا ہی ہوا۔ مسلمان یورپی ساحل پر پہنچے اور قلعہ ترنب کی بندرگاہ گیلی پولی پر قبضہ کرلیا ، جس میں جناقلا ، ایبسالا اور روداستو کے قلعے واقع تھے۔ یہ سارے شہر اور قلعے تنگ “ڈرونیل” پر واقع تھے اور جنوب سے شمال تک دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس طرح سلطان اورخان نے یہ بہت بڑا اقدام کیا جس سے قسطنطنیہ کی فتح کی کوشش کرنے والے ہرفرد کو فائدہ ہوا۔
History Of Orhan Ghazi in Urdu :
سلطان اورخان کی زندگی کی ایک بڑی کامیابی اسلامی لشکر کا قیام اور ان کو خاص فوجی نظام کا پابند بنانے کے لئے منصوبہ بندی کرنا تھا۔ یہ لشکر کئی یونٹ میں منقسم تھا۔ ہر یونٹ میں دس ، سو یا ایک ہزار سپاہی ہوتے تھے۔اس وقت مال غنیمت کا پانچواں حصہ اس لشکر پر خرچ ہوتا تھا۔ یہ پہلی باقاعدہ فوج تھی کیونکہ اس سے پہلے صرف جنگ کے وقت رضاکارانہ جمع ہوتے تھے اور باقاعدہ فوج کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اورخان نے اس لشکر کے لئے چھاؤنیاں قائم کیں، جہاں انہیں جنگ کی تربیت دی جاتی تھی۔ جیسے ہی اورخان اس لشکر کی تنظیم سے فارغ ہوئے ، وہ فورا ہی ایک مذہبی عالم دین ربانی الحجاج بکتاش کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جو ایک بہت ہی متقی اور پرہیزگار شخص تھے۔ اورخان نے ان سے دعائے خیر کی درخواست کی تو انہوِں نے اپنا ہاتھ ایک سپاہی کے سر پر رکھا اور دعا کی کہ اللہ انہیں سرخرو کرے اور ان کی تلواروں میں تیز ی اور کاٹ پیدا کرے۔ انہوں نے ہی اس فوج کا نام “ین چیری” تجویز کیا۔ یہی فوج تاریخ میں جانثاری فوج کے نام سے مشہور ہے۔ اس نئے لشکر کے جھنڈے کا رنگ سرخ تھا۔جس پر ہلال بنا ہوا تھا۔ہلال کے نیچے ذوالفقار نامی ایک تلوار بنی تھی ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کا نام تھا۔
Extra History Of Orhan Ghazi in Urdu :
سلطنت کو مستحکم کرنے کے لئے ، اورخان نے اصلاحات اور عمرانی امور کی طرف پر توجہ دی۔اورخان نےنظام سلطنت کو نئے خطوط پر استوار کیا اور فوجی طاقت میں اضافہ کیا۔ انہوں نے مساجد تعمیر کیں اور تعلیمی ادارے قائم کیے۔ انہوں نے ان اداروں کا نگہبان بہترین علما کرام اور اساتذہ کو مقرر کیا۔ پورے ملک میں ان علما کو بڑی عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ قارہ سی کی امارات پر قبضہ کے بعد مزید بیس سال تک اورخان نے کسی بھی علاقے پر حملہ نہیں کیا اور بیس سال کا یہ عرصہ اس ملک نظم و نسقط کو بہتر بنانے اور فوجی طاقت کو مستحکم کرنے پر لگایا۔ اورخان غازی کی شادی نیلوفر خاتون سے ہوئی ، جن سے ان کا بیٹا مراد اول پیدا ہوا ۔ مراد اول کو ہی سلطنت عثمانیہ کا اصل بانی سمجھا جاتا ہے۔ جس نے 1326 سے 1359 تک حکومت کی۔ اس نے زیادہ تر مغربی اناطولیہ کو سلطنت عثمانیہ سے منسلک کیا ، جبکہ ترک فوجیں اس کے دور میں پہلی بار یورپ میں داخل ہوئی جب اس کے بیٹے سلیمان پاشا نے گیلی پولی پر 1354 میں قبضہ کیا۔ اورخان غازی کا انتقال 1360 یا 1362 میں بورصہ شہر میں ہوا اور وہیں اپنے والد عثمان غازی کے پاس مدفن ہوئے۔ آپ نے 75 سال کی عمر پائی اور 30 سال تک حکمرانی کی۔
یہ تھا آج کا آرٹیکل۔ اچھا لگا تو پلیز ہماری حوصلہ افزائی کے لئے اسے اپنے دوست احباب کے ساتھ شیئر لازمی کریں۔ شکران