بہادر شاہ ظفر کا شاہی لباس میں پورٹریٹ، تخت پر بیٹھے، افسردہ انداز میں۔

بہادر شاہ ظفر، مغل سلطنت کے آخری بادشاہ، ایک شاعر، درویش صفت انسان، اور 1857ء کی جنگ آزادی کے ایک علامتی رہنما تھے۔ ان کے دور حکومت میں سلطنت صرف دہلی کے قلعے تک محدود ہو چکی تھی، لیکن ان کی شخصیت میں وہ وقار، درد اور شعور باقی تھا جو مغلیہ عظمت کی آخری جھلک پیش کرتا تھا۔ یہ مضمون بہادر شاہ ظفر کی زندگی، حکومت، شاعری، اور تاریخ میں اُن کے مقام پر روشنی ڈالے گا۔

ابتدائی زندگی

بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775ء کو شاہ عالم ثانی کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ابو ظفر سراج الدین محمد تھا۔ بچپن ہی سے انہیں فارسی، اردو، اور عربی زبان کی تعلیم دی گئی، اور وہ ابتدائی عمر سے ہی شاعری کی طرف مائل تھے۔ اُن کی شخصیت میں سادگی، حلم، اور فکری گہرائی نمایاں تھی۔ اُن کے دور کے شعرا جیسے کہ غالب، ذوق، اور مومن ان کے دربار سے منسلک رہے۔

تخت نشینی اور محدود اختیار

سن 1837ء میں، بہادر شاہ ظفر اپنے والد اکبر شاہ ثانی کی وفات کے بعد مغل تخت پر بیٹھے۔ تاہم اس وقت مغل بادشاہ کا اختیار صرف لال قلعہ تک محدود تھا۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی پورے ہندوستان پر قابض تھی اور بادشاہ صرف علامتی حیثیت رکھتا تھا۔ بہادر شاہ نے حالات کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ پرامن طریقے اپنانے کی کوشش کی، لیکن عوامی خواہشات، قومی احساسات، اور مذہبی جذبات نے انہیں بعد میں ایک بڑی تاریخی تحریک کا حصہ بنا دیا۔

شاعری، ادب اور دربار کی فکری فضا

بہادر شاہ ظفر ایک اعلیٰ درجے کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں درد، جدائی، محبت، اور وطن سے وابستگی کا گہرا رنگ ملتا ہے۔ ان کے اشعار نہ صرف فن کا نمونہ ہیں بلکہ ایک زوال پذیر سلطنت کے جذباتی نوحے بھی ہیں۔

“کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں”

ان کے دربار میں اردو کے عظیم شعرا جیسے کہ مرزا غالب، شیخ امام بخش صہبائی، اور حکیم احسن اللہ خان شامل تھے۔ انہوں نے ادب و ثقافت کو زوال کے دور میں بھی زندہ رکھا۔

سن 1857ء کی جنگ آزادی میں کردار

سن 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82 برس کے ضعیف العمر بادشاہ تھے۔ جب ہندوستانی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے دہلی آ کر بادشاہ کو اپنا رہنما بنایا۔ بہادر شاہ نے عوامی دباؤ پر بغاوت کی قیادت قبول کی، حالانکہ ان کے پاس کوئی عسکری قوت نہ تھی۔ انہوں نے دہلی کے مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی علامت بنے۔

گرفتاری، مقدمہ اور جلاوطنی

انگریزوں نے 1857ء کی بغاوت کو خونریز طریقے سے کچلا۔ دہلی پر دوبارہ قبضے کے بعد بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر فورت ولیم میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں غدار قرار دے کر برما (موجودہ میانمار) جلا وطن کر دیا گیا۔ وہاں وہ بے سروسامانی کی حالت میں 7 نومبر 1862ء کو وفات پا گئے۔

ان کا مزار رنگون میں واقع ہے، جس پر ان کے اشعار آج بھی نقش ہیں، جو ظلم و جبر کے خلاف انسانیت کی صدا بن چکے ہیں۔

ورثہ اور تاریخی اہمیت

بہادر شاہ ظفر کا دور عملی طور پر مغل سلطنت کا خاتمہ تھا، لیکن ان کی شخصیت آج بھی مزاحمت، تہذیب، اور اتحاد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری، نرم خوئی، اور فراست سے ہندوستانی تاریخ میں ایک مستقل مقام حاصل کیا۔ آج بھی ان کا نام جب لیا جاتا ہے تو دل پر ایک عجیب سا درد اُتر آتا ہے — کہ ایک عظیم تہذیب کس طرح زوال کا شکار ہوئی۔

نتیجہ

بہادر شاہ ظفر نہ صرف ایک حکمران بلکہ ایک شاعر، مفکر، اور ہندوستانی تہذیب کی آخری نشانی تھے۔ ان کی زندگی مغلیہ زوال کا نوحہ بھی ہے اور استعمار کے خلاف ایک خاموش احتجاج بھی۔ وہ ہم سے صرف دو گز زمین نہ مانگ سکے، لیکن اپنے الفاظ سے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہ گئے۔

By Kashif

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *