ٹیپو سلطان کا نام سنتے ہی ایک بہادر، نڈر اور جدوجہد کرنے والی شخصیت ذہن میں آتی ہے۔ وہ نہ صرف ایک حکمران تھا بلکہ برصغیر میں برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بھی تھا۔ اس کی شخصیت میں بہادری، سادگی، علم پروری اور اسلامی حمیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ وہ 18ویں صدی کے اُن چند حکمرانوں میں سے تھا جنہوں نے جدید ٹیکنالوجی، فوجی اصلاحات اور سیاسی حکمت عملی کے ذریعے ایک بڑی سلطنت کو منظم کیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ٹیپو سلطان 20 نومبر 1751 کو دیوانی ہلی (موجودہ کرناٹک) میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، حیدر علی، میسور کے ایک طاقتور جرنیل اور بعد میں حکمران بنے۔ ٹیپو کو ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیرِ نگرانی ملی۔ انہیں عربی، فارسی، اسلامیات اور جنگی فنون کی خصوصی تربیت دی گئی۔ نوعمری ہی میں انہوں نے مختلف جنگی مہمات میں حصہ لیا، جس سے ان کی ذہانت اور بہادری نمایاں ہوئی۔
ٹیپو سلطان نے صرف روایتی تعلیم تک محدود نہیں رہے بلکہ سائنس، ریاضی اور یورپی ٹیکنالوجی سے بھی دلچسپی لی۔ ان کے پاس جدید توپیں، راکٹ سسٹم اور عسکری نقشے تھے، جو ان کے وقت کے لحاظ سے نہایت جدید تھے۔
حکمرانی اور اصلاحات
ٹیپو سلطان نے 1782 میں اپنے والد حیدر علی کی وفات کے بعد حکومت سنبھالی۔ ان کا دورِ حکومت جدید ریاستی نظام، زراعت کی ترقی، عدالتی اصلاحات اور صنعتی بہتری کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے سونے کے سکے جاری کیے، ناپ تول کے پیمانے مقرر کیے، اور مختلف صنعتوں کو فروغ دیا۔
ٹیپو نے اپنی فوج کو یورپی طرز پر منظم کیا اور کئی جدید ہتھیار شامل کیے۔ ان کا “راکٹ یونٹ” دنیا کا پہلا باقاعدہ راکٹ آرٹلری یونٹ مانا جاتا ہے۔ انہوں نے فرانسیسی ماہرین کی مدد سے اپنے اسلحہ خانے کو جدید خطوط پر استوار کیا، جو ان کے دور کی انقلابی پیش رفت تھی۔
برطانوی سامراج سے ٹکراؤ
ٹیپو سلطان نے اپنی پوری زندگی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مزاحمت میں گزاری۔ انہوں نے چار اینگلو-میسور جنگیں لڑیں، جن میں سے ابتدائی دو میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ اُن کی سب سے بڑی کامیابی 1780ء کی دوسری اینگلو-میسور جنگ تھی، جس میں انہوں نے انگریزوں کو زبردست شکست دی اور ان کے جنرل بیلی کو قید کیا۔
تاہم، چوتھی جنگِ میسور 1799 میں انگریزوں کی بھرپور تیاری، غداری، اور حیدرآباد دکن کی شرکت سے ٹیپو کو شکست ہوئی۔ 4 مئی 1799 کو سرنگاپٹم کے قلعے میں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا، لیکن انگریز ان کی جرات و استقامت کے معترف رہے۔
شخصیت اور ورثہ
ٹیپو سلطان صرف ایک جرنیل نہیں بلکہ ایک عادل حکمران، علم دوست، اور قوم پرست رہنما بھی تھے۔ انہوں نے خود کو “خادمِ دین” کہا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں ریاست چلائی۔ ان کے دور میں تعلیم، فن تعمیر اور صنعت کو فروغ ملا۔ انہوں نے مدارس، مساجد، اور تحقیقی ادارے قائم کیے۔
آج بھی ٹیپو سلطان کو “شیرِ میسور” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا قول — “شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” — آج بھی حریت کے علمبرداروں کے لیے مشعل راہ ہے۔
نتیجہ
ٹیپو سلطان کی زندگی ایک جدوجہد، بصیرت، اور قربانی کی روشن مثال ہے۔ وہ نہ صرف جنوبی ہندوستان بلکہ برصغیر کی آزادی کی تاریخ میں ایک لازوال کردار ہے۔ اس کی زندگی کا پیغام آج بھی برطانوی نوآبادیاتی نظام، ظلم، اور غداری کے خلاف جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے۔
