السلام علیکم، سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کی زندگی پر مبنی سلسلے میں آج ہم آپ کوسلطنت عثمانیہ کے پانچویں فرمانروا سلطان محمد اول کی کہانی بیان کریں گے۔ آج ہم اس عظیم شخص کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جس نے اس ٹکڑوں میں بٹی ہوئی عظیم الشان سلطنت کو دوبارہ متحد کردیا۔ ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ انقرہ کی جنگ میں شکست کے بعد ، بایزید اول کو تیمور لنگ نے ایک پنجرے میں قید کردیا تھا اور اس کی بہت تذلیل کی تھی۔ اور افسوس کی بات یہ تھی کہ اسی بایزید کے بیٹے بچی کچی سلطنت کی پر قبضہ جمانے کے لئے دس سال تک آپس میں لڑتے رہے۔ لیکن پھر وہ شخص برسرِ اقتدار آیا جس نے اس خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور ایک مرتبہ پھر اس عظیم الشان سلطنت کو اپنے جد امجد کے تاریخی خواب کو پورا کرنے کی طرف گامزن کیا۔ اس شخص کا نام سلطان محمد اول تھا اور تاریخ اسے محمد چلبی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آج کے آرٹیکل میں ہم آپ کو ان ہی کے متعلق میں بتائیں گے.
Sultan Muhammad 1 History Urdu :
سن 1389 یا کچھ روایات کے مطابق سن 1387 میں برسا میں پیدا ہونے والے سلطان محمد اول کے والد بایزید اول تھے اور ان کی والدہ دولت خاتون تھیں۔ سلطان محمد اول درمیانے قد ، گول چہرہ ،ملے ہوئے ابرو ، سفید رنگت ، سرخ گال ، کشادہ سینہ ، طاقتور جسم اور بلا کی پھرتی رکھنے والے سلطان محمد اول کو اللہ نے کمال شجاعت اور بہادری سے نوازا تھا. وہ بہت اچھے پہلوان تھے. سلطان محمد اول کی جسمانی طاقت کا یہ عالم تھا کہ کئی کمانوں کے تانتوں کو بیک وقت کھینچ لیتے تھے۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے 24 جنگوں میں حصہ لیا اور چالیس کے قریب زخم کھائے۔ تیمور لنگ کے ہاتھوں شکست کے بعد ، سلطنت عثمانیہ ایک مشکل دور میں داخل ہوگئی تھی۔ اگلے 20 برس تک ، سلطنت عثمانیہ کو خانہ جنگی سے شدید تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر اکانجے لکھتے ہیں کہ بایزید اول کے چاروں بیٹے کے اپنے اپنے ہزاروں حامی تھے اور وہ برسوں تک آپس میں لڑتے رہے۔ خانہ جنگی کے آخر میں ، سلطان کا سب سے چھوٹا بیٹا ، محمد اول اپنے بھائیوں کو شکست دے کر 1413 میں سلطنت عثمانیہ کا واحد وارث بنا۔ سلطان محمد اول کو سلطنت عثمانیہ کی سلطان بایزید کے دور میں جو حدود تھیں ان کو بحال کرنے میں مزید کئی سال تک جدوجہد کرنا پڑی۔ کیرولین فنکل لکھتی ہیں کہ 1416 میں شاہ رخ نے سلطان محمد اول کو خط لکھا اور اپنے بھائیوں کو ہلاک کرنے پر احتجاج کیا۔ تو عثمانی سلطان کا جواب تھا ، “ایک ملک میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے”. ہمارے دشمن جنہوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ سلطان محمد اول نے فہم و فراست اور دوراندیشی کی بدولت بڑی مہارت سے خانہ جنگی پر قابو پایا اور ایک ایک کرکے اپنے تمام بھائیوں پر غلبہ حاصل کرکے اس سلطنت کے واحد حکمران بن گئے۔
Sultan Muhammad 1 Detailed History Urdu :
اپنے آٹھ سالہ حکمرانی کے دور میں سلطان محمد اول نے سلطنت عثمانیہ کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے اور اس کے ستونوں کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی.ان کی حکومت کا زیادہ تر عرصہ اسی کام میں گزرا. اور اسی لئے بعض مورخین اسے سلطنت عثمانیہ کا دوسرا بانی قرار دیتے ہیں۔ سلطان محمد اول کو جو چیز دوسرے سلاطین سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے آپ کی فہم و فراست اور اس کے ساتھ برداشت۔ جس نے بھی قانون شکنی کی اور سلطان کی اطاعت سے انکار کیا ، سلطان نے اس کے معاملے میں برداشت سے کام لیا۔ جب کریمان علاقے کے امیر نے خودمختاری کا اعلان کیا اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر سلطان کے سامنے پیش کیا گیا تو قرآن مجید کی قسم کھانے کی وجہ سے سلطان نے اسے معاف کردیا۔ اور پھر جب دوبارہ قسم توڑ کر آمادہ بغاوت ہوا اور منہ کی کھائی، تو دوبارہ سلطان کے سامنے پیش ہوا، لیکن سلطان نے معافی مانگنے پر اسے دوبارہ معاف کردیا۔
History Of Sultan Muhammad 1 in Urdu :
سلطان محمد اول کی پالیسی کا اہم ہدف سلطنت کی تعمیر نو اور داخلی طور پر اسے مضبوط کرنا تھا۔اسی لئے جب کلیتوبولی کی جنگ میں سلطان کو شکست ہوئی تو اس نے بحیرہ اسود کے ساحل کے کچھ شہروں کو قسطنطنیہ کے امیر کو واپس کردیئے۔ اس کے ساتھ معاہدہ کرلیا اور تمام فتنوں کا خاتمہ کردیا۔ ایشیاء اور یورپ کی بغاوتوں کو سرکیا اور ایشیاء کی بعض امارتوں کو اطاعت پر مجبور کیا جن کو تیمور لنگ نے بغاوت پر اکسایا تھا۔ یہ امارات دوبارہ عثمانی سلطنت کی دوستی اور اطاعت کا دم بھرنے لگیں۔
سلطان محمداول کے زمانے میں ، شیخ بدرالدین محمود نامی ایک شخص ظاہر ہوا ، جس نے ایک مسلمان عالم کا روپ دھار رکھا تھا۔ وہ سلطان محمد کے بھائی موسی کے لشکر میں تھا اور اس دور کے دولتِ عثمانیہ کے سب سے بڑے منصب “قاضی الاسکار” کے عہدے پر فائز ہوا۔ موسیٰ بن یزید نے اسے اپنا مقرب خاص بنالیا اور یوں وہ لوگوں کی عقیدتوں کا مرکز بن گیا۔ موسیٰ جب اپنے بھائی محمد اول کے ہاتھوں قتل ہوا تو اس وقت بدر الدین ترکی کے شہر ازنک میں محبوث ہوگیا۔ یہاں بدرالدین نے لوگوں کو اپنے غلط اور فاسق مذہب کی طرف دعوت دینا شروع کردی۔ اس کا یہ باطل مذہب کافی پھیل گیا اور اس کے پیروکار بہت زیادہ ہو گئے۔ اس کے مبلغین میں سے ایک شخص بہت مشہور ہوا ، جسے پیر کلیجا کہا جاتا تھا۔ حتی کہ اس باطل عقیدے کی بازگشت جب سلطان محمد اول کے کانوں تک پہنچی تو سلطان نے اپنا ایک لشکر اس کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا لیکن اس لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد سلطان نے وزیر خاص بایزید پاشا کی کمان میں ایک اور لشکر بھیجا ، جس نے پیر کلیجہ کے خلاف جنگ کی اور قرق برنو کے مقام پر اسے شکست دی۔ لیکن شیخ بدرالدین اپنی گمراہی پر قائم رہا. وہ گمان کرتا تھا کہ وہ اس علاقے پر غلبہ حاصل کر لے گا۔ رومانیہ کے امیر الاخلاق نے اس بدعتی اورخارجی کی مدد کی۔ لیکن سلطان محمد اول نے اس دشمن اسلام کا پیچھا تعاقب جاری رکھا. وہ دلی اورمان کے علاقے چلا گیا جو آج کل بلغاریہ میں ہے. جہاں اس کو یورپی امداد ملنے لگی.اور سلطان محمد کے خلاف بغاوت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔
Extra History Of Sultan Muhammad 1 in Urdu :
سلطان محمد اول بڑے بیدار مغز اور محتاط شخص تھے۔ وہ ہر کام کو پوری احتیاط اور سوچ سمجھ سے سرانجام دیتے تھے۔ اس لیے بدرالدین اور اس کے حواریوں کے خلاف انہوں نے کسی دوسرے شخص کو قائد بنانے کی بجائے ، خود ہتھیار سجا کر میدان میں اترنا گوارا سمجھا۔ سلطان کے مخبروں بہت کوشش کی اور باغیوں کی صفوں میں گھس کر اہم معلومات حاصل کرلیں ، جس سے باغیوں کو بدترین شکست ہوئی۔ بدر الدین کو جب سلطان محمد اول کے سامنے پیش کیا گیا تو سلطان نے اس سے پوچھا ” کیا وجہ ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کا چہرہ زرد پڑرہا ہے؟ بدرالدین نے کہا: اے میرے آقا! جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو اس کا رنگ زرد کا ہو جاتا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے علمائے کرام نے بدر الدین سے آزادانہ مناظرہ کیا اور اس کو شرعی قانون کے مطابق سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ سلطان محمد اول شعرو ادب اور فنون لطیفہ کے بھی قدر دان تھے۔ یہ پہلے سلطان تھے جنہوں نے امیر مکہ مکرمہ کی خدمت میں سالانہ ہدیہ بھیجا ، جسے السیراء کہا جاتا تھا۔ دراصل یہ ایک مخصوص رقم تھی جو امیر مکہ کو بھیجی جاتی تھی تاکہ وہ اس رقم کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے فقرا، مساکین میں تقسیم کرے۔ عثمانی، سلطان محمد اول کو بہت پسند کرتے تھے اور انہیں پہلوان کا نام دیتے تھے۔ اور اسکی وجہ ان کی کمال مستعدی اور شجاعت تھی۔ اس کے علاوہ اس کی منفرد شخصیت اور عظیم کارنامے تھے جن کی وجہ سے دولتِ عثمانیہ اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ پھر سلطان اپنی عادات و خصائل، حوصلہ مندی، علم دوستی اور عدل و انصاف کی بدولت اس قابل تھا کہ اس کی قوم اس سے محبت کرتی اور اسے چلبی کے لقب سے یاد کرتی تھی۔ یہ ایک معزز و محترم لقب ہے جو وقار اور بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
History Of 5th Ruler Of Ottoman Empire :
سلطان محمد اول اسلام ، علم اور فقہاء کے دلدادہ تھے۔ اس لئے انہوں نے اڈریہ نیپلس جو نمازیوں کا شہرمشہور تھا اس دارالحکومت کو بروسہ کے شہر منتقل کردیا ، جو فقہاء کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ سلطان بے حد خلیق ، اعلی مرتبت ، سنجیدہ فکر ، بردبار اور دوستوں اور دشمنوں کے بارے ایک منفرد پالیسی رکھنے والے شخص تھے۔ اگرچہ آل عثمان کے بعض دوسرے حکمران ان سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ عثمانی سلاطین میں بلندی اخلاق کے حوالے سے عظیم ترین انسان سمجھے جاتے ہیں۔ مشرقی اور یونانی مورخین نے بھی ان کی بلندی اخلاق کا اعتراف کیا ہے۔اور عثمانی مورخین نے انہیں ایک عظیم اور قابل حکمران کا درجہ دیا ہے۔جس نے دولت عثمانیہ کی ڈولتی کشتی کو اس وقت ساحل آشنا کیا جب تاتاری حملوں ، داخلی جنگوں اور باطنی فتنوں کے طوفان میں وہ بری طرح گھر چکی تھی۔
سلطان محمد اول جب ان تمام فتنوں کا خاتمہ کرچکے جن کا دولت عثمانیہ کو سامنا تھا، تو ملک کے داخلی نظم و استحکام کی طرف توجہ دی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما ناں ہوں. لیکن عین اسی وقت وہ شدید بیمار ہو گئے اور جب انہیں اپنے مزید زندہ رہنے کی امید باقی ناں رہی تو انہوں نے اپنے وزیر بایزید پاشا کو بلایا اور کہا: “میں نے اپنے بیٹے مراد کو نائب متعین کیا ہے۔ اس کی اطاعت کرنا اور اس سے اسی طرح مخلص رہنا جس طرح مجھ سے رہے۔ میں چاہتا ہوں تم فوراً اسی لمحے مراد کو میرے پاس لے آؤ کیونکہ میں بستر سے نہیں اٹھ سکوں گا۔ اگر اس کے آنے سے پہلے میں مر جاؤں تو خبردار مراد کی آمد تک میری موت کا اعلان مت کرنا”.
Who Was Sultan Muhammad 1 :
26 مئی 1421 کو سلطان محمد اول محض 32 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کا مزار برسا میں سبز مسجد کے ساتھ واقع ہے۔ اس خیال سے کہ سلطان کے وصال کی خبر سے کوئی ناخوشگوار واقع رونما ناں ہوجائے، ان کے دو اہم ترین وزراء ابراہیم اور بایزید پاشا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جب تک مراد ثانی نہیں پہنچ جاتے، اس خبر کو فوج سے پوشیدہ رکھا جائے۔ انہوں نے ایک طرف فوج میں سلطان کے بیمار ہونے کی خبر پھیلا دی اور دوسری طرف سلطان کے بیٹے کو جلدی پہنچنے کی تاکید کی۔ اکتالیس دن بعد جب مراد ایڈریہ نیپلس پہنچا تو وزراء نے سلطنت کی چابیاں اس کے حوالے کردیں۔ سلطان مراد نے اپنے دورحکومت میں کیا کارنامے سرانجام دئیے؟ اور اس کے بعد سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں کیا ہوا؟ یہ سب جاننے کے لئے اگلے آرٹیکل کا انتظار کریں. شکریہ